اپنی نہ کہوں تو کیا کروں میں

اپنی نہ کہوں تو کیا کروں میں
ہر بات کی ابتدا میں ہوں میں

محتاط ہوں، مطمئن نہیں ہوں
محتاط بھی کب تلک رہوں میں

موجود کے ہاتھ آگیا ہوں
ممکن سے گریز کیا کروں میں

یاں کچھ بھی نہیں مرا اگرچہ
کیا اپنی مثال بھی نہ دوں میں

یہ پھول مرے لیے کھِلے ہیں
ثابت ہی اگر نہ کر سکوں میں

اِک شہر کے بعد، دوسرا شہر
خاموش رہوں کہ خوش رہوں میں
ذوالفقار عادل

Comments