کون تھا جس نے اداسی کی پذیرائی کی

کون تھا جس نے اُداسی کی پذیرائی کی
کیسے بنیاد پڑی شہر میں تنہائی کی

روز و شب اپنے بکھرنے میں ہی مصروف ہوں میں
اتنا مصروف, کہ فرصت نہیں یکجائی کی



ڈوب بھی سکتے ہیں یہ سطح پہ رہنے والے
اِن سے باتیں نہ کِیا کیجیے گہرائی کی

بند آنکھوں سے بھی ہر وقت نظر آتا ہے
کیسا منظر ہے ضرورت نہیں بینائی کی

اجنبی اپنے لیے ہوں کہ زمانے کے لیے
دیکھتا رہتا ہوں تصویر شناسائی کی

اس تماشے کو خدا دیکھنے والا ہے بہت
کیا ضرورت ہے کسی اور تماشائی کی

کاشف حسین غائر

Comments