کیوں ہم سے خفا ہو گئے اے جان تمنا

کیوں ہم سے خفا ہو گئے اے جانِ تمنا
بھیگے ہوئے موسم کا مزا کیوں نہیں لیتے

یہ رات، یہ برسات، یہ ساون کا مہینا
ایسے میں تو شعلوں کو بھی آتا ہے پسینا
اِس رُت میں غریبوں کی دُعا کیوں نہیں لیتے
بھیگے ہوئے موسم کا مزا کیوں نہیں لیتے

دیکھو تو ذرا جھانک کے، باہر کی فضا میں
برسات نے اِک آگ لگا دی ہے ہوا میں
اِس آگ کو سینے میں بسا کیوں نہیں لیتے
بھیگے ہوئے موسم کا مزا کیوں نہیں لیتے

آیا ہے کسے راس، جُدائی کا یہ عالم
تڑپیں گے اکیلے میں اُدھر آپ اِدھر ہم
دِل دِل سے میری جان مِلا کیوں نہیں لیتے
بھیگے ہوئے موسم کا مزا کیوں نہیں لیتے

کیوں ہم سے خفا ہو گئے اے جانِ تمنا
بھیگے ہوئے موسم کا مزا کیوں نہیں لیتے

قتیل شفائی

Comments