پھر پلٹنے نکلے ہیں ساری داستانوں کو

پھر پلٹنے نکلے ہیں ساری داستانوں کو
ہم جگائے رکھیں گے گھر کے سائبانوں کو
روشنی کے مینارے، شہر میں ہوئے قائم
کالا پوت ڈالو اب سارے شمع دانوں کو
تیز بہتے قدموں سے ڈھک گئی ہیں سب سڑکیں
آہٹوں کی عادت تھی سونے پائدانوں کو
یوں ہی بس سلگنے کا سلسلہ رکھو جاری
بھولنے نہیں دینا فرض راکھدانوں کو
فکر کے سلیقے تو ہم خرید لائیں ہیں
مشق جاری رکھنا ہے اپنی آسمانوں کو

آشفتہ چنگیزی

Comments