کسی کا نام سنتے ہی لرز اٹھتے ہیں لب اس کے

کسی کا نام سنتے ہی لرز اٹھتے ہیں لب اس کے
کہ اس کے ساتھ بھی شاید نہیں اعصاب اب اس کے
ہمارے ہوش بھی آخر ٹھکانے آ ہی جائیں گے
اسے بھی راس آ جائیں گے شائد روز و شب اس کے
سرِ ساحل وہ اپنی بالکونیوں میں ہی آ جاتا
اور آ کر دیکھتا کس حال میں ہیں تشنہ لب اس کے
رہی ہے دھڑکنوں تک فاصلوں میں بھی ہم آہنگی
ذرا بھی مختلف ہم سے رہے جذبات کب اس کے
نجانے ایسا کیا دُکھ دے دیا ہے اس کی چاہت نے
کہ لوگ اس شہر میں شکوہ کناں ہیں سب کے سب اس کے
دکھانے کیا چلے جاتے ہو ساجدؔ ٹائیٹل اپنے
ابھی نزدیک سے گزرا نہیں ذوقِ ادب اس کے

اعتبار ساجد

Comments