Posts

Showing posts from January, 2018

پھرا کر اپنے رخ کو پھیر میں چلمن کے بیٹھے ہیں

ملا کر خاک میں بھی ہائے شرم اُنکی نہیں جاتی

بھویں تنتی ہیں خنجر ہاتھ میں ہے تن کے بیٹھے ہیں

کون آئے گا یہاں کوئی نہ آیا ہوگا 

کیوں کہہ کے دل کا حال کریں ہائے ہائے دل

غرور جاں کو مرے یار بیچ دیتے ہیں 

دل کا نُقصان کر کے بیٹھے ہیں

فیض کی نظم

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

نہ آیا نامہ بر اب تک، گیا تھا کہہ کے اب آیا

سوکھے ہونٹ، سلگتی آنکھیں، سرسوں جیسا رنگ

سب کو دل کا محرم پایا

ہیں دھوپ کے نیزے بھی جعلی، اشجار بھی یونہی لگتے ہیں

حواس کا جہان ساتھ لے گیا

عادتا تم نے کر دیے وعدے

دن کچھ ایسے گذارتا ہے کوئی

ہستی اپنی حباب کی سی ہے 

بسے ہوئے تو ہیں لیکن دلیل کوئی نہیں

حضورِ شاہ میں اہلِ سخن کی آزمائش ہے 

سایۂ گل سے بہر طور جد ہو جانا

بابا بلھے شاہ ، اک نقطے وچ گل مکدی اے

دو غزلیں

تب کہیں جھکایا ہے سر غرورِ شاہی نے

پیڑ کے پتوں میں ہلچل ہے، خبردار سے ہیں

نالہ حدودِ کوئے رسا سے گزر گیا

ہمارے خون کے پیاسے پشیمانی سے مر جائیں 

شام رخصت کہ ترستی ہی چلی جاتی ہے

دنیا کے ستم یاد نہ اپنی ہی وفا یاد 

باپ کی عظمت پر شاعری

کسی کی بزم میں ہم اِس خیال سے بھی گئے

روکتا ہے غمِ اظہار سے پندار مجھے

تھک گئے ہو تو تھکن چھوڑ کے جا سکتے ہو

شکنجے ٹوٹ گئے زخم بدحواس ہوئے

قصّے میری الفت کے جو مرقوم ہیں سارے

لب اگر یوں سئے نہیں ہوتے

کہاں قاتل بدلتے ہیں، فقط چہرے بدلتے ہیں

یاروں کو تسلیم نہیں ، کب کوئی عدو انکاری ہے 

سنے کون قصہ دردِ دل میرا غمگسار چلا گیا

رسوائی کا میلہ تھا سو میں نے نہیں دیکھا

حال اس کا ترے چہرے پہ لکھا لگتا ہے

حج وی کیتی جاندے او

ہم سفر ساتھ تو چل جتنی سڑک باقی ہے 

ہم جان فدا کرتے ، گر وعدہ وفا ہوتا

ایک شعر

پُلس نوں آکھاں رشوت خور تے فیدہ کی

ندیاں سر پٹک رہی ہوں گی

پلٹ کے آنکھ نم کرنا مجھے ہرگز نہیں آتا

محبت عدیم ہاشمی

ان کہی ، نظم

پہلا سا حال پہلی سی وحشت نہیں رہی

کیا سروکار اب کسی سے مجھے 

اب نہ وہ احباب زندہ ہیں نہ رسم الخط وہاں 

چارہ گر ہار گیا ہو جیسے

نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا 

جو ذرا تیرے پاس ہو بیٹھے 

کہتا نہیں ہے کوئی بھی سچ بات اِن دِنوں

ایسا نہیں کہ ان سے محبت نہیں رہی 

وہیں چاک کردِیا خط، جہاں میرا نام دیکھا

کِسی ترنگ کسی سر خوشی میں رہتا تھا

اُس نے جس جس کو بھی جانے کا کہا بیٹھ گیا

آج تنہائی میں دل ڈوب گیا

شُکر کیا ہے ان آنکھوں نے صبر کی عادت ڈالی ہے

راحت نہ مل سکی مجھے مے خانہ چھوڑ کر