ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

امریکی کمیونسٹ جوڑا "جولئیس اور ایتھل رورنبرگ" جنہیں 19 جُون 1953 کو جاسوسی اور امریکی ایٹمی راز روس کو دینے کے الزام میں پھانسی دے دی گئی۔ فیض صاحب نے اپنی خوبصورت نظم "ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے" اس جوڑے کے لیے لکھی۔
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خُشک ٹہنی پے وارے گئے
تیرے ہاتھوں کی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے
سُولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے
تیرے ہونٹوں کی لالی لپکتی رہی
تیری زلفوں کی مستی برستی رہی
تیرے ہاتھوں کی چاندی دمکتی رہی
جب گھُلی تیری راہوں میں شامِ ستم
ہم چلے آئے لائے جہان تک قدم
لب پہ حرفِ غزل دل میں قندیلِ غم
اپنا غم تھا گواہی تیرے حُسن کی
دیکھ قائم رہے اِس گواہی پہ ہم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
نارسائی اگر اپنی تقدیر تھی
تیری اُلفت تو اپنی ہی تدبیر تھی
کس کو شکوہ ہے گر شوق کے سلسلے
ہِجر کی قتل گاہوں سے سب جا مِلے
قتل گاہوں سے چُن کر ہمارے عَلم
اور نکلیں گے عُشّاق کے قافلے
جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
کر چلے جِن کی خاطر جہاں گیر ہم
جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم
 ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

Comments