شکنجے ٹوٹ گئے زخم بدحواس ہوئے



شِکنجے ٹُوٹ گئے زَخم بدحواس ہُوئے
 سِتم کی حد ہے کہ اِہلِ سِتم اُداس ہُوئے
حساب کیجیے کتنا سِتم ہُوا ہو گا
 کفن دَریدہ بدن زِندگی کی آس ہُوئے
نجانے شیر کے بچے اُٹھا لیے کِس نے
 یہ مُوئے شَہر جو جنگل کے آس پاس ہُوئے
ہر ایک فیصلہ محفوظ کرنے والو سنو
 جھکے ترازُو شَبِ ظلم کی اَساس ہُوئے
ہماری نسل بھی محرومِ اِنقلاب رہی
 ہمارے شعر بھی کُتبوں کا اِقتباس ہُوئے
قبائے زَخمِ بَدن اَوڑھ کر ہم اُٹھے قیسؔ 
 جو شاد کام تھے مِحشَر میں بے لباس ہُوئے
شہزاد قیس

Comments