خوشی ملی تو یہ عالم تھا بدحواسی کا 



خوشی ملی تو یہ عالم تھا بدحواسی کا 
کہ دھیان ہی نہ رہا غم کی بے لباسی کا 
چمک اٹھے ہیں جو دل کے کلس یہاں سے ابھی 
گزر ہوا ہے خیالوں کی دیو داسی کا 
گزر نہ جا یوں ہی رخ پھیر کر سلام تو لے 
ہمیں تو دیر سے دعوی ہے روشناسی کا 
خدا کو مان کہ تجھ لب کے چومنے کے سوا 
کوئی علاج نہیں آج کی اداسی کا 
گرے پڑے ہوئے پتوں میں شہر ڈھونڈتا ہے 
عجیب طور ہے اس جنگلوں کے باسی

ظفر اقبال

Comments