شام رخصت کہ ترستی ہی چلی جاتی ہے

شام رخصت کہ ترستی ہی چلی جاتی ہے
 وہ مجھے بانہوں میں کَستی ہی چلی جاتی ہے
چُومتا جاتا ہُوں مَیں پھولوں بھری ڈالی کو
 اور خوش بُو مجھے ڈَستی ہی چلی جاتی ہے



دُور تک پھول برستے ہی چلے جاتے ہیں 
 جب وہ ہنستی ہے تو ہَنستی ہی چلی جاتی ہے
دیر سے بیٹھے ہیں دو اجنبی اِک کمرے میں 
 اور بارِش کہ برستی ہی چلی جاتی ہے
دَر و دیوار اُجڑتے ہی چلے جاتے ہیں 
 دل کی بستی ہے کہ بستی ہی چلی جاتی ہے
توڑتا جاتا ہُوں مَیں آئنہ خانے ' قیصر !
 ایک صورت ہے کہ ہنستی ہی چلی جاتی ہے
نذیر قیصر

Comments