ہستی اپنی حباب کی سی ہے 



ہستی اپنی حباب کی سی ہے 
یہ نمائش سراب کی سی ہے 
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے 
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے 
بار بار اس کے در پہ جاتا ہوں 
حالت اب اضطراب کی سی ہے 
میں جو بولا کہا کہ یہ آواز 
اسی خانہ خراب کی سی ہے 
میر ان نیم باز آنکھوں میں 
ساری مستی شراب کی سی ہے 
میر تقی میر

Comments