شاعری رنگ طبیعت کا دکھا دیتی ہے

شاعری رنگ طبیعت کا دکھا دیتی ہے
 بوئے گل راہ گلستاں کی بتا دیتی ہے
سیرِ غربت کوئی جلسہ جو دکھا دیتی ہے
 یادِ احبابِ وطن مجھ کو رلا دیتی ہے
بے خودی پردهٔ کثرت جو اٹھا دیتی ہے
 ہر طرف جلوهٔ توحید دکھا دیتی ہے
آمدِ یاس پہ ہو قہر خدا کا نازل
 رہروِ منزلِ الفت کو ڈرا دیتی ہے
ہو نہ رنگین طبیعت بھی کسی کی یا رب
 آدمی کو یہ مصیبت میں پھنسا دیتی ہے
نگہِ لطف تری بادِ بہاری ہے مگر
 غنچۂ خاطرِ عاشق کو کھلا دیتی ہے
اچھی صورت میں بھی خالق نے بھرا ہے جادو
 اپنے مشتاق کو دیوانہ بنا دیتی ہے
پوچھتا ہوں میں جو عبرت سے مآلِ ہستی
 راستہ گورِ غریباں کا بتا دیتی ہے
نظر آتا جو نہیں نزع میں بالیں پہ کوئی
 بے کسی اُن کے تغافل کو دعا دیتی ہے
کیا صفائی رخِ جاناں کی ہے اللہ اللہ
 دیکھنے والوں کو آئینہ بنا دیتی ہے
دشمنِ اہلِ نظر ہے نگہِ حُسن پرست
 الفتِ پاک کو بھی عیب لگا دیتی ہے
موت سے کوئی نہ گھبرائے اگر یہ سمجھے
 کہ یہ دنیا کے بکھیڑوں سے چھڑا دیتی ہے
بد سلوکی تری لاتی ہے خرابی مجھ پر
 میری تقدیر کو الزام لگا دیتی ہے



نگہِ شوق سے کیوں کر نہ گلوں کو دیکھوں 
 ان کی رنگت ترے عارض کا پتہ دیتی ہے
قیدِ ہستی ہے غبارِ رخِ آئینۂ روح
 جانِ مشتاق کو جاناں سے چھڑا دیتی ہے
کشتہ ہوں مرگِ حسیناں کی میں بے دردی کا
 خاک میں چاند سی صورت کو ملا دیتی ہے
فکرِ اکبر گلِ مضموں کا دکھا کر جلوہ
 محفلِ شعر میں رنگ اپنا جما دیتی ہے
(اکبر الٰہ آبادی)

Comments