زباں ہلاؤ تو ہو جائے فیصلہ دل کا

زباں ہلاؤ تو ہو جائے فیصلہ دل کا
اب آچکا ہے لبوں پر معاملہ دل کا

کسی سے کیا ہو تپش میں مقابلہ دل کا
جگر کو آنکھ دکھاتا ہے آبلہ دل کا

خدا کے واسطے کرلو معاملہ دل کا
کہ گھر کے گھر ہی میں ہو جائے فیصلہ دل کا

تم اپنے ساتھ ہی تصویر اپنی لے جاؤ
نکال لیں گے کوئی اور مشغلہ دل کا

قصور تیری نگہہ کا ہے کیا خطا اُس کی 
لگاوٹوں نے بڑھایا ہے حوصلہ دل کا

نہ جان دیتے بن آئے نہ زندہ رہتے بنے
بگڑ گیا ہے یہ کیسا معاملہ دل کا

شباب آتے ہی اے کاش موت بھی آتی
ابھارتا ہے اسی سن میں ولولہ دل کا

کئے ہیں تونے دلِ اہل انجمن بے تاب
روا روی میں ہے مصروف قافلہ دل کا

جو مصنفی ہے جہاں میں تو منصفی تیری
اگر معاملہ ہے تو معاملہ دل کا

ملی بھی ہے کبھی عاشق کی داد دنیا میں
ہوا بھی ہے کبھی کم بخت فیصلہ دل کا

نگاہِ مست کو تم ہوشیار کردینا
یہ کوئی کھیل نہیں ہے مقابلہ دل کا

ہماری آنکھ میں بھی اشک گرم ایسے ہیں
کہ جن کے آگے بھرے پانی آبلہ دل کا

اگرچہ جان پہ بن بن گئی محبت میں
کسی کے منہ پہ نہ رکھا کبھی گلہ دل کا

ازل سے تابہ ابد عشق ہے اسی کے لیے
ترے مٹائے مٹے گا نہ سلسلہ دل کا

کروں تو داور محشر کے سامنے فریاد
تجھی کو سونپ نہ دے وہ معاملہ دل کا

نہ آئیں خضر کبھی آپ بھول کر بھی ادھر
جناب من! نہیں آسان مرحلہ دل کا

کچھ اور بھی تجھے اے داغ بات آتی ہے
وہی بتوں کی شکایت، وہی گلہ دل کا
داغ دہلوی

Comments