پھرا کر اپنے رخ کو پھیر میں چلمن کے بیٹھے ہیں




پھرا کر اپنے رخ کو پھیر میں چلمن کے بیٹھے ہیں
وہ سچ مچ ہم سے ناخوش ہو گئے ، یا بن کے بیٹھے ہیں
غضب کیا ہے جو ہم کوچے میں اس پُر فن کے بیٹھے ہیں
کسی کو کیا غرض، مالک ہیں اپنے من کے بیٹھے ہیں
الٰہی ! خیر دل کی ، جان کی ، چشمِ تماشا کی
بلا کی شان سے محفل میں وہ بن ٹھن کے بیٹھے ہیں
بٹھا کر پاس اس نے دور دل سے کر دیا ہم کو
یہ کیا معلوم تھا پہلو میں ہم دشمن کے بیٹھے ہیں
جنہوں نے جیتے جی مجھ سے نہ میرا حال تک پوچھا
وہی اب سر جھکائے سامنے مدفن کے بیٹھے ہیں
کہاں ایسا مقدر تھا کہ ہو تا یہ شرف حاصل
عنایت ہے کہ سائے میں ترے دامن کے بیٹھے ہیں
یہ میری بزم ہے آئینہ بندی عہدِ ماضی کی
یہاں مل جل کے کچھ ساتھی مرے بچپن کے بیٹھے ہیں
ستم صیاد کا برحق، زباں اپنی بیا ں اپنا
قفس میں ہیں ، مگر قصّے لیے گلشن کے بیٹھے ہیں
حیات و موت ہیں دونوں ترے کوچے سے وابستہ
جنازہ بن کے اٹھیں گے ، تمنا بن کے بیٹھے ہیں
نصیرؔ! ان کو کوئی پہچان لے ، یہ غیر ممکن ہے
کچھ ایسا روپ بدلا ہے ، کچھ ایسے بن کے بیٹھے ہیں
نصیر الدین نصیرؔ

Comments