گلہ نہیں ہے اگر میں تیری نظر میں نہیں 



گلہ نہیں ہے اگر مَیں تیری نظر میں نہیں 
 ستارہ کوئی بھی اِس وقت اپنے گھر میں نہیں
تری طرح مری دنیا میں اختیار کسے
 مری طرح کوئی بے بس ترے نگر میں نہیں
کِیا ہے فکرِ نشیمن سے برق نے آزاد
 خدا کا شکر کہ اب میں کسی خطر میں نہیں
اب احتساب کسی کا کوئی کرے کیسے
 بھنور ہے کشتی میں کشتی کسی بھنور میں نہیں
کوئی امیر ہو اپنی بلا سے ، کوئی غریب
 سوال اتنا ہے کیوں فرق خیر و شر میں نہیں
اس ارتقا کا نہ جانے زوال کیا ہوگا
 بشر کی کوئی صفت آج کے بشر میں نہیں
چلے ہو ساتھ تو ہمت نہ ہارنا واصف
 کہ منزلوں کا تصور میرے سفر میں نہیں
 واصف علی واصف

Comments