اب نہ وہ احباب زندہ ہیں نہ رسم الخط وہاں 

اب نہ وہ احباب زندہ ہیں نہ رسم الخط وہاں 
روٹھ کر اردو تو دہلی سے دکن میں آ گئی 
اس کے چہرے کا مجھے مردانہ پن اچھا لگا 
چاشنی نمکین سی سارے بدن میں آ گئی 
کیوں سپیرا پن ترے نینوں میں پیدا ہو گیا 
اس قدر شوخی کدھر سے بانکپن میں آ گئی 
ایک بوسہ ہونٹ پر پھیلا تبسم بن گیا 
جو حرارت تھی مری اس کے بدن میں آ گئی 
ایک وحشی صنف سے ہم نے شرافت سیکھ لی 
پنج تن کی لو غزل کی انجمن میں آ گئی 
خلد کی تصویر کاوشؔ ہو بہو کشمیر تھی 
لاش اس کی پیرہن سے خود کفن میں آ گئی
کاوش بدری

Comments