میں تو مقتل میں بھی قسمت کا سکندر نکلا​

میں تو مقتل میں بھی قسمت کا سکندر نکلا​
قرعہ ء فال مرے نام کا اکثر نکلا​
تھا جنہیں زعم وہ دریا بھی مجھی میں ڈوبے​
میں کہ صحرا نظر آتا تھا سمندر نکلا​
میں نے اس جان ِ بہاراں کو بہت یاد کیا​
جب کوئی پھول میری شاخِ ہنر پر نکلا​


شہر والوں کی محبت کا میں قائل ہوں مگر​
میں نے جس ہاتھ کو چوما وہی خنجر نکلا​
تو یہیں ہار گیا ہے مرے بزدل دشمن​
مجھ سے تنہا کے مقابل تیرا لشکر نکلا​
میں کہ صحرائے محبت کا مسافر تھا فرازؔ​
ایک جھونکا تھا کہ خوشبو کے سفر پر نکلا​
احمد فرازؔ

Comments