تب کہیں جھکایا ہے سر غرورِ شاہی نے



تب کہیں جھکایا ہے سر غرورِ شاہی نے
 جب اٹھا لیا سر پر تخت بے گناہی نے
کیا عجب عدالت ہے کیا عجیب منصف ہیں
 دن کو قید میں ڈالا رات کی گواہی نے
راستے رفاقت کے بند کر دیئے سارے
 اُس کی کج ادائی نے میری کج کلاہی نے
اک نگینۂ فن کو تلف کر دیا یونہی
 جوہری کی کم علمی اور کم نگاہی نے
پھر اُسی منافق کی رہبری میں چلنا ہے
 کچھ نہیں کیا اب تک جس کی سربراہی نے
سہل ہو گئے رستے پاس آ گئی منزل
 مسکرا کے جب دیکھا سختیوں کو راہی نے
میں یونہی بہت اچھا دوستو خدا حافظ
 خاک کر دیا مجھ کو رسمِ خیر خواہی نے
عزیز نبیل

Comments