دو غزلیں



دھنک دھنک مری پوروں کے خواب کر دے گا 
وہ لمس میرے بدن کو گلاب کر دے گا 
قبائے جسم کے ہر تار سے گزرتا ہوا 
کرن کا پیار مجھے آفتاب کر دے گا 
جنوں پسند ہے دل اور تجھ تک آنے میں 
بدن کو ناؤ لہو کو چناب کر دے گا 
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی 
وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کر دے گا 
انا پرست ہے اتنا کہ بات سے پہلے 
وہ اٹھ کے بند مری ہر کتاب کر دے گا 
سکوت شہر سخن میں وہ پھول سا لہجہ 
سماعتوں کی فضا خواب خواب کر دے گا 
اسی طرح سے اگر چاہتا رہا پیہم 
سخن وری میں مجھے انتخاب کر دے گا 
مری طرح سے کوئی ہے جو زندگی اپنی 
تمہاری یاد کے نام انتساب کر دے گا
پروین شاکر
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیں بھلا کے کسی کو “جناب“ سمجھا گیا
ستمگری کا ہمیں انتخاب سمجھا گیا

وہ ایک خواب کی صورت میں ڈھل گیا کیسے؟
محبتوں کا جسے انتساب سمجھا گیا

دہن دریده کو سمجھا گیا وفا کا امیں
ہماری چُپ کو یہاں اجتناب سمجھا گیا

ہمارے سچ کو زمانے میں مل سکا نہ مقام
وه جھوٹ بول کے عزت مآب سمجھا گیا

تمھارےسامنے کاغذ کے پھول تھے وه مگر
سُنا ہے بزم میں انکو گلاب سمجھا گیا

ہم اپنے دور سے پیچھے ہی ره گئے تھے کہیں
اب آگئے هیں تو ہم کو سراب سمجھا گیا

هماری اپنی کہانی تھی جو کہی تھی تمہیں
ہنروروں میں اسے اضطراب سمجھا گیا

عجب تماشا بنایا ہے مُنصفوں نے یہاں
ہمارے قتل کو دیکھو ثواب سمجھا گیا

ہماری ساده دلی کی مثال کون بتول
بُروں کے شہر میں ہم کو خراب سمجھا گیا

فاخرہ بتول

Comments