Posts

Showing posts from 2021

ڈر جاندا ہاں

کنج زنداں میں پڑا سوچتا ہوں

یہ اور بات کہ سورج میں روشنی کم ہے

تجھ سے بچھڑ کے ہم بھی مقدر کے ہو گئے

دلیلیں منطقیں اور فلسفے بے کار ہوتے ہیں

زلف پیچاں کے خم سنوارے ہیں

ہنس کے بولا کرو بلایا کرو

کتنا خاموش ہوں میں اندر سے

سکوں بھی خواب ہوا نیند بھی ہے کم کم پھر

چھت پہ آجاؤ مرا شعر مکمل کر دو

وہ قحط عشق کہ دشوار ہو گیا جینا

اندھا کباڑی

یہ چشم و لب ہیں یا کوئی آیت لکھی ہوئی

اک کیفیت پیاس کی دائم ہمیں قبول

حسن کو عشق کی ضرورت ہے

غم حیات کی لذت بدلتی رہتی ہے

مجھ میں کتنے راز ہیں بتاؤں کیا

کالی راتوں کو بھی رنگین کہا ہے میں نے

کبھی دماغ کبھی دل کبھی نظر میں رہو

لگے تھے لوگ اسے ہوشیار کرنے میں

جتنی راز داری سے رابطے بڑھاتی ہے

عجیب سے خمار میں پڑا رہا مَرا رہا

میں جب اس کےلئے بیتاب ہوا کرتا تھا

ورنہ کھا جاتے مسائل مجھے خیر و شر کے

ہوش رہتا نہیں جوانی میں

شاپنگ

دنگ ہیں سب دیکھ کر آدھا ادھر آدھا ادھر

سچے پیار جہان توں ٹر گئے

کوئی گل باقی رہے گا نے چمن رہ جائے گا

کنواں

مستنصر حسین تارڑ

نقش ماضی کے جو باقی ہیں مٹا مت دینا

ہم سے وفا کے بارے میں جو چاہے پوچھ لو

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہوگا

اور قافلہ سالار حسین ابن علی ہے

قابض رہا ہے دل پہ جو سلطان کی طرح

اے میرے ہمنشیں چل کہیں اور چل اس چمن میں اب اپنا گزارا نہیں

قبراں اڈیک دیاں مینوں جیوں پتراں نوں ماواں

اس قدر تیری حرارت مرے ایمان میں آئے

قسمت نوع بشر تبدیل ہوتی ہے ہے یہاں

دامن میں آنسوؤں کا ذخیرہ نہ کر ابھی

کوئی ہو جائے مسلمان تو ڈر لگتا ہے

رخ مصطفیٰ کو دیکھا تو دیوں نے جلنا سیکھا

میرے جینے کا طور کچھ بھی نہیں

دیکھی جو زلف یار طبیعت سنبھل گئی

ہم کو اس شوخ نے کل در تلک آنے نہ دیا

یکایک مجھ دِسا یک شہ جواں آ سوار تازی کا

مٹی تھی خفا موج اٹھا لے گئی ہم کو

جو بھی انسان ملا اس سے محبت کی ہے

خدا کرے کہ تمہارا بھی کوئی یوسف ہو

وہاں وکیل قطاروں میں جب قطارے گئے

جمدی رہیگی رکھ نئیں مردی

گھر ونج گیا نئیں

چمن میں گل نے جو کل دعوی جمال کیا

جھوٹے بھی پوچھتے نہیں ٹک حال آن کر

کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا

گناہ کر کے کہیں پارسا نہ ہو جائے

یہ بھی حق نہیں رہا کیا مجھے

مری بساط میں جو تھا وہ سارا غم لگا دیا

بینائی کے طلسم سے آگے بھی دیکھیے

ہے عرش پہ قوسین کی جا جائے محمد

نام سے جس کے دل کو حرارت ملے​

تکتی رہتی ہیں رہ طیبہ مسلسل آنکھیں

موت نے پردا کرتے کرتے پردا چھوڑ دیا

تمہاری یاد سے دل کو ہیں راحتیں کیا کیا

پہنچ گیا جو تمہارے در پر کہوں گا تم سے سلام سائیں