کنواں

" کنواں "
کنواں چل رہا ہے ! مگر کھیت سوکھے پڑے ہیں نہ فصلیں ، نہ خرمن ، نہ دانہ
 نہ شاخوں کی باہیں ، نہ پھولوں کے مکھڑے ، نہ کلیوں کے ماتھے ، نہ رت کی جوانی
گزرتا ہے کیاروں کے پیاسے کناروں کو یوں چیرتا تیز ، خوں رنگ ، پانی
کہ جس طرح زخموں کی دکھتی تپکتی تہوں میں کسی نیشتر کی روانی
ادھر دِھیری دِھیری
کنوئیں کی نفیری
ہے چھیڑے چلی جا رہی اک ترانہ
 پر اسرار گانا
جسے سن کے رقصاں ہے اندھے تھکے ہارے بے جان بیلوں کا جوڑا بچارا
گراں بار زنجیریں ، بھاری سلاسل ، کڑکتے ہوئے آتشیں تازیانے
طویل اور لا منتہی راستے پر بچھا رکھے ہیں دام اپنے قضا نے
اِدھر وہ مصیبت کے ساتھی ، ملائے ہوئے سینگوں سے سینگ ، شانوں سے شانے
رواں ہیں نہ جانے
کدھر ؟ کس ٹھکانے ؟
نہ رکنے کی تاب اور نہ چلنے کا یارا
 مقدر نیارا
کنوئیں والا ، گادی پہ لیٹا ہے مست اپنی بنسی کی میٹھی سریلی صدا میں
کہیں کھیت سوکھا پڑا رہ گیا اور نہ اس تک کبھی آئی پانی کی باری
کہیں بہہ گئی ایک ہی تند ریلے کی فیاض لہروں میں کیاری کی کیاری
کہیں ہو گئیں دھول میں دھول لاکھوں ، رنگا رنگ فصلیں ، ثمر دار ساری
پریشاں پریشاں
گریزاں گریزاں
تڑپتی ہیں خوشبوئیں دام ہوا میں
 نظامِ فنا میں
اور اک نغمہ سرمدی کان میں آ رہا ہے ، مسلسل کنواں چل رہا ہے
پیاپے مگر نرم رو اس کی رفتار ، پیہم مگر بے تکان اس کی گردش
عدم سے ازل تک ، ازل سے ابد تک ، بدلتی نہیں ایک آن اس کی گردش
نہ جانے لئے اپنے دو لاب کی استینوں میں کتنے جہان اس کی گردش
رواں ہے رواں ہے
تپاں ہے تپاں ہے
یہ چکر یونہی جاوداں چل رہا ہے
 کنواں چل رہا ہے
مجید امجد
فروری 1941ء

Comments