Posts

Showing posts from October, 2019

کچھ تو تنہائی کی راتوں میں سہارا ہوتا

وہی ناصبوری آرزو وہی نقش پا وہی جادہ ہے

قلم کی نوک پہ رکھوں گا اس جہان کو میں

نہ بھولا اضطراب دم شماری انتظار اپنا

الاٹ بنگلہ ہوا اور نہ کارخانہ ملا

بوئے آدم زاد

زندگی اک پیرہ زن ، ن م راشد

ہلکی سی حرارت پوروں کی چن لیتی درد جہانوں کے

نعت میں کیسے کہوں ان کی رضا سے پہلے

گھر  میں  پھول چھپانا   کتنا  مشکل  ہے

کہ رتی بھر بھی زمانے کا ڈر نہیں ہوتا

یہ داستاں ہماری پہلے سنائی جا چکی ہے

اب بھی اکثر دھیان تمہارا آتا ہے

یہ کیسا نشہ ہے میں کس عجب خمار میں ہوں

اہل نظر کی آنکھ میں تاج وہ کلاہ کیا

یاد کرنے پہ نہ یاد آئیں زمانے ہو جائیں

وہ میرے پاس ہے کیا پاس بلاؤں اس کو

بہت ہوا رو دیتے تھے

تمام ان کہی باتوں کا ترجمہ کر کے

زخموں کو رفو کرلیں دل شاد کریں پھر سے

ہزار خواب لیے جی رہی ہیں سب آنکھیں 

آج بازار میں پا بجولاں چلو

اس کے دل کے اندر ساڈی یاد کا روڑا رڑکا ہوگا​

یک ذرہ زمیں نہیں بیکار باغ کا

تو ہے مشکل کشا اے خدا اے خدا

طاؤس در رکاب ہے ہر ذرہ آہ کا

تنگ آ گئے ہیں کیا کریں اس زندگی سے ہم

میرے راستے میں پڑاؤ ہے

لغزشوں سے ماورا تو بھی نہیں میں بھی نہیں

آفتاب صبح

ہم دیکھتے ہیں

بے وفائی کے صلے میں با وفا پکڑے گئے

فریب حسن سے گبرو مسلماں کا چلن بگڑا

کوئی محمل نشیں کیوں شاد یا ناشاد ہوتا ہے

دونوں ہیں ان کے ہجر کا حاصل لیئے ہوئے

ایک کونے میں سر کو جھکائے ہوئے درد کی شمع افسردہ جلتی رہی

ایک دل ہمدم مرے پہلو سے،ل کیا جاتا رہا

غم سے گر آزاد کرو گے

متاع شیشہ کا پروردگار سنگ ہی سہی 

میں کہتا ہوں کہ یہ کیا ہو رہا ہے

قلم کی نوک جہاں کامیاب ٹھہرے گی

بڑھا لے اپنی سواری نہ اب دکان لگا