اس نے جو گھر میں سر پہ دوپٹہ نہیں کیا

اس نے جو گھر میں سر پہ دوپٹہ نہیں کیا
مجھ پر کسی درخت نے سایہ نہیں کیا



 تو جانتا نہیں ہے مرا ساتھ چھوڑ کر
تو نے تو اپنے ساتھ بھی اچھا نہیں کیا
غم پڑھنے والے کم ہیں مگر اس کے باوجود
چہرے کو دل کی قبر کا کتبہ نہیں کیا
گزرے دنوں کو سوچتے بچوں نے باپ سے
ہجرت کے بعد کوئ تقاضا نہیں کیا
ہم نے تو صرف پیار کیا ؛جرم بن گیا
لوگوں نے دل کے نام پہ کیا کیا نہیں کیا
پھولوں کا سینہ چیر کے پھیلی ہے ہر طرف
خوشبو نے انتظار ہوا کا نہیں کیا
یہ غم نہیں کہ وہ مری خوشیاں بھی لے گیا
دکھ یہ ہے اس نے مجھ پہ بھروسا نہیں کیا
گھاؤ کریدے اپنے تو غزلیں عطا ہوئیں
ہم نے کسی کے زخم کا چربہ نہیں کیا
راکب مختار

Comments