اوس کی طرح خواب تھے آنکھیں نمی سے بھر گئے

اوس کی طرح خواب تھے آنکھیں نمی سے بھر گئے

رات تھی اپنی زندگی، صبح ہوئی تو مر گئے


دیکھ ہمیں تُو غور سے، تیرے جہانِ عشق میں

ہم وہ عجیب لوگ ہیں، آۓ بھی اور گزر گئے

پاؤں تو کٹ چکے مِرے، شوقِ سفر کا کیا کروں

اب وہ مسافتیں کہاں، جب سے وہ ہمسفر گئے


ہجر بھی اپنا عشق تھا، وصل بھی اپنا عشق ہے

دل نے کہا بکھر گئے، دل نے کہا سنور گئے


کس کی مجال ہے کہے، ان سا سخن کہ جو ندیمؔ

کوٹ مٹھن میں آۓ اور لفظوں سے جھولی بھر گئے

ندیم بھابھہ


Comments