اس فقیری میں یہ بھی شان تو ہے

اس فقیری میں یہ بھی شان تو ہے
چھت نہیں سر پہ آسمان تو ہے
خیر خوا ہی ہو یا کہ بد خوا ہی
میری جانب ترا دھیان تو ہے
بدگما نی ہر ایک بات میں کیوں
سا زشی کو ئ درمیان تو  ہے
ساری بستی ہے ڈھیر ملبے کا
اب مرے شہر میں امان تو ہے
کچھ نہ کچھ ہے کہ بات کرتے ہوئے
لڑکھڑائ تری  زبان تو ہے
حشر کے دن نتیجہ نکلے گا
زندگی ایک امتحان  تو ہے
ہے جو یہ بوریا نشیں شاعر
عصرحاضر کا ترجمان تو ہے
مرتضیٰ برلاس

Comments