دل کو ذرا قرار تھا وہ بھی نہیں رہا

دل کو ذرا قرار تھا وہ بھی نہیں رہا 
آنکھوں کو انتظار تھا وہ بھی نہیں رہا 



 وہ ساتھ تھا تو ساتھ میں میری بھی ذات تھی 
میرا کہیں شمار تھا، وہ بھی نہیں رہا 
اس سے ہوئے جدا تو پھر خود کو بھی کھو دیا 
خود پر جو اعتبار تھا وہ بھی نہیں رہا 
دامن میں کوئی چاند، ستارہ نہ آفتاب 
جگنو پر انحصار تھا وہ بھی نہیں رہا 
جھیلی تھیں جس کے سنگ ہی یہ رنجشیں کبھی 
اک دل ہی غم گسار تھا وہ بھی نہیں رہا 
الجھا تھا میرے دل میں جو مدت سے اک سوال 
لب پر جو بار بار تھا وہ بھی نہیں رہا 
جس پر چراغ روز جلاتی تھی رات کو 
دل میں جو اک مزار تھا وہ بھی نہیں رہا 
مدت سے اس کی راہ میں دل تھا بچھا ہوا 
سوچوں میں وصل یار تھا وہ بھی نہیں رہا 
تقدیر کی اسیر ہوں جس کے لئے یہ دل 
مدت سے اشک بار تھا وہ بھی نہیں رہا 
معبود میرے میرا مقدر تو دیکھ لے 
خود پر جو اختیار تھا وہ بھی نہیں رہا

نجمہ شاہین کھوسہ

Comments