وہ میرے پاس ہے کیا پاس بلاؤں اس کو

وہ میرے پاس ہے کیا پاس بلاؤں اس کو
دل میں رہتا ہے کہاں ڈھونڈھنے جاؤں اس کو



آج پھر پہلی ملاقات سے آغاز کروں
آج پھر دور سے ہی دیکھ کے آؤں اس کو

قید کر لوں اسے آنکھوں کے نہاں خانوں میں
چاہتا ہوں کہ کسی نہ ملاؤں اس کو

اسے دنیا کی نگاہوں سے کروں میں محفوظ
وہ وہاں ہو کہ جہاں دیکھ نہ پاؤں اس کو

چلنا چاہے تو رکھے پاؤں میرے سینے پر
بیٹھنا چاہے تو آنکھوں پہ بٹھاؤں اس کو

وہ مجھے اتنا سبک ، اتنا سبک لگتا ہے
کبھی گر جائے تو پلکوں سے اٹھاؤں اس کو

مجھے معلوم ہے آخر تو جدا ہونا ہے
لیکن اک بار تو سینے سے لگاؤں اس کو

یاد سے اس کی نہیں خالی کوئی لمحہ
پھر بھی ڈرتا ہوں کہیں بھول نہ جاؤں اس کو

آج تو دھوپ میں تیزی ہی بہت ہے ورنہ
اپنے سائے سے بھی شہزاد بچاؤں اس کو

شہزاد احمد

Comments