طاؤس در رکاب ہے ہر ذرہ آہ کا

طاؤس در رکاب ہے ہر ذرہ آہ کا
یارب نفس غبار ہے کس جلوہ گاہ کا
عزلت گزینِ بزم ہیں واماندگانِ دید
مینائے مے ہے ، آبلہ پائے نگاہ کا
ہر گام آبلے سے ہے ، دل، در تہِ قدم
کیا بیم اہلِ درد کو سختیِ راہ کا
غافل بہ وہمِ ناز خود آرا ہے ورنہ یاں
بے شانۂ صبا نہیں، طرہ گیاہ کا
جیبِ نیازِ عشق نشاں دارِ ناز ہے
آئینہ ہوں، شکستنِ طرفِ کلام کا
بزمِ قدح سے عیش تمنا نہ رکھ کہ رنگ
صیدِ ز دام جستہ ہے ، اس دام گاہ کا
رحمت اگر قبول کرے ، کیا بعید ہے
شرمندگی سے عذر نہ کرنا گناہ کا
مقتل کو کس نشاط سے جاتا ہوں میں کہ ہے
پُر گل، خیالِ زخم سے دامن نگاہ کا
جاں، در ہوائے یک نگہِ گرم ہے اسدؔ
پروانہ، ہے وکیل ترے داد خواہ کا
مرزا غالب

Comments