آنسووں میں پرو دیے گئے تھے

آنسووں میں پرو دیے گئے تھے
غم زمانے کے جو دیے گئے تھے

اس کی پلکوں سے توڑ کر آنسو
میری آنکھوں میں بو دیے گئے تھے

کر کے پھولوں کی جھولیاں خالی
رنگ اس میں سمو دیے گئے تھے

وہ جوانی تھی بادلوں پہ سوار
نین میرے بھگو دیے گئے تھے

چھین کر ناز ہرنیوں کے بھی
اس کی رفتار کو دیے گئے تھے

شعر کہتا ھے ، مار دیتا ھے
مجھ کو الزام دو دیے گئے تھے

عذر مہندی کا تھا مگر ممتاز
پاؤں اس کے تو دھو دیے گئے تھے
ممتازگورمانی

Comments