نگاہ قہر ہوگی یا محبت کی نظر ہوگی

نگاہِ قہر ہوگی یا محبت کی نظر ہوگی
مزہ دے جائے گی دل سے اگر اے سیم بَر ہوگی

تمہیں جلدی ہے کیا جانا ابھی تو رات باقی ہے
نہ گھبراؤ ذرا ٹھہرو کوئی دم میں سحر ہوگی

ابھی سے سارے عالم میں تو اک اندھیر برپا ہے
نہ جانے کیا غضب ڈھائے گی جب یہ تا کمر ہوگی

نہ لائے گی تو کیا بے چین بھی ان کو نہ کر دے گی
ہماری آہ کیا کمبخت اتنی بے اثر ہوگی

ہم اس کو دیکھ لیں گے اور وہ ہم کو نہ دیکھے گی
نگاہِ یار کیا محفل میں اتنی بے خبر ہوگی



چلا جاتا تو ہوں بہروپ بن کر ان کی محفل میں 
کہوں گا کیا رسائی گر کہیں منہ دیکھ کر ہوگی

نگاہِ لطف سے دیکھا گا مجھ کو ایک جہاں تو کیا
اگر تم دیکھ لو گے میری قسمت عرش پر ہوگی

اسیری میں بھی یادِ گل کرے گی اس طرح بلبل
قفس کے در پہ سر ہوگا، سوئے گلشن نظر ہوگی

جو بے جُرمی پہ بھی بسملؔ کو تم نے کر دیا بسمل
بتاؤ گے بھلا کیا حشر میں پُرسش اگر ہوگی

بسمل عظیم آبادی

Comments