یاد کرنے پہ نہ یاد آئیں زمانے ہو جائیں

یاد کرنے پہ نہ یاد آئیں زمانے ہو جائیں
وہ نئے حرف نہ لکھو جو پرانے ہو جائیں
ہم سخاوت ہی پہ آمادہ نہیں ہیں، ورنہ
دل ہمارے بھی محبت کے خزانے ہو جائیں

کون پرچھائیوں کے عکس کو پہچانے گا
گھر اگر گھر نہ رہیں، آئینہ خانے ہو جائیں
زندگی ایسا بیاباں ہے کہ جس کے موسم
صرف اک شخص کے آنے سے سہانے ہو جائیں



بے دھیانی میں نکل جاتے ہو غیروں کی طرف
اِس طرف بھی کبھی غفلت کے بہانے ہو جائیں
سب اسے اپنے نشانے پہ لیے بیٹھے ہوں 
اور اک ساتھ خطا سب کے نشانے ہو جائیں
میں وہ درویشِ دعا گو ہوں کہ سب حرفِ دعا
آئیں ہونٹوں پہ تو تسبیح کے دانے ہو جائیں

سلیم کوثر

Comments