ملنا نہ ملنا ایک بہانہ ہے اور بس 

ملنا نہ ملنا ایک بہانہ ہے اور بس 

تم سچ ہو باقی جو ہے فسانہ ہے اور بس


لوگوں کو راستے کی ضرورت ہے اور مجھے 

اک سنگِ رہ گزر کو ہٹانا ہے اور بس



مصروفیت زیادہ نہیں ہے مری یہاں 

مٹی سے اک چراغ بنانا ہے اور بس


سوئے ہوئے تو جاگ ہی جائیں گے ایک دن 

جو جاگتے ہیں ان کو جگانا ہے اور بس


تم وہ نہیں ہو جن سے وفا کی امید ہے 

تم سے مری مراد زمانہ ہے اور بس


پھولوں کو ڈھونڈتا ہوا پھرتا ہوں باغ میں 

بادِ صبا کو کام دِلانا ہے اور بس


آب و ہوا تو یوں بھی مرا مسئلہ نہیں 

مجھ کو تو اک درخت لگانا ہے اور بس


نیندوں کا رت جگوں سے الجھنا یونہی نہیں 

اک خوابِ رائیگاں کو بچانا ہے اور بس


اک وعدہ جو کیا ہی نہیں ہے ابھی سلیمؔ 

مجھ کو وہی تو وعدہ نبھانا ہے اور بس

سلیم کوثر


Comments