Posts

Showing posts from September, 2022

یہ مجھ سے کس طرح کی ضد دل برباد کرتا ہے

شرمندہ ہم جنوں سے ہیں ایک ایک تار کے

بہت جبین و رخ و لب بہت قد و گیسو

بس کسی دوست کے ملنے سے جدا ہونے تک

تو ہی کچھ اپنے سر پہ نہ یاں خاک کر گئی

فرصت کا وقت ڈھونڈ کے ملنا کبھی اجل

بکھر جائیں گے کیا ہم جب تماشا ختم ہو گا

یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے

آبلے مٹی پسینہ جیسے ویرانوں کا بوجھ

ہنگامہ بہ دوش آئے طوفاں بہ کنار آئے

آنکھوں میں اشک بھر کے مجھ سے نظر ملا کے

مٹ گیا جب مٹنے والا پھر سلام آیا تو کیا

زباں سخن کو سخن بانکپن کو ترسے گا

نظر کے بھید سب اہلِ نظر سمجھتے ہیں

کیا بتائیں عشق پر کیا کیا ستم ڈھائے گئے

غزل کے ساز اٹھاؤ بڑی اُداس ہے رات

وطن میں واپسی

میں ازل کی شاخ سے ٹوٹا ہوا

رات کٹتی نظر نہیں آتی

تو مری جان گر نہیں آتی

بتا کیا ہے کیا تو نے میرے لیے

پاؤں سے خواب باندھ کے شام وصال کے

غزلیں نہیں لکھتے ہیں قصیدہ نہیں کہتے

پتہ نہیں کیوں

تراشیدم

بھلے دنوں کی بات ہے

جن کی یادیں ہیں ابھی دل میں نشانی کی طرح

تھا شوق مجھے طالب دیدار ہوا میں

ہم یوسف زماں تھے ابھی کل کی بات ہے

اس در پہ آبرو نہیں جاتی سوال سے