کیا بتائیں عشق پر کیا کیا ستم ڈھائے گئے

کیا بتائیں عشق پر کیا کیا ستم ڈھائے گئے​
چار سو پرچم گریبانوں کے لہرائے گئے​
کتنے نالے ہوگئے گم قہقہوں کی گونج میں​
کتنے نغمے ہیں جو غم کی تال پر گائے گئے​
دوستوں کی دوستی نے بھی دئے ہیں کچھ فریب​
کچھ حسین دھوکے مگر دانستہ بھی کھائے گئے​
جعفر و صادق کی غداری بھی زندہ کی گئی​
قاسم و محمود کے قصے بھی دہرائے گئے​
غم تو یہ ہےکھل گیا اہل محبت کا بھرم​
اس کا کیا غم ہے کہ ہم کیوں دار تک لائے گئے​
کیا یہ کچھ کم ہے قیامت، چلتے چلتے تھک گئے​
اور چلے تھے جس جگہ سے ہم وہیں پائے گئے​
کس قدر شاداب چہرے کھا گئیں تاریکیاں​
کس قدر خورشید ابھرے اور گہنائے گئے​
سر دھنے جاتے رہے ہیں رقص بسمل دیکھ کر​
اشکبار آنکھوں کے آگے جام چھلکائے گئے​
ناخدا بدمست ظالم جام ٹکراتا رہا​
جب سفینے تند طوفانوں سے ٹکرائے گئے​
پہلے خود کانٹے بچھائے اہلِ دل کی راہ میں​
ہوگئے زخمی تو ان پر پھول برسائے گئے​
اس کی محفل اجنبی خود وہ بھی ہے اب اجنبی​
جس کی محفل میں ہزاروں بار ہم آئے گئے​
عشق آوارہ نگاہی، حسن تسکینِ ہوس​
آہ کن لفظوں کو کیا مفہوم پہنائے گئے​
کون کہہ سکتا ہے میں ہوں رازدارِ زندگی​
کاکل اسرار فطرت کیسے سلجھائے گئے​
غم تو ہے کیفی ہماری زندگی کے ساتھ ساتھ​
ہم جہاں پہنچے وہیں تک کرب کے سائے گئے
زکی کیفی ​

Comments