غم حیات کی لذت بدلتی رہتی ہے

غمِ حیات کی لذّت بدلتی رہتی ہے
بقدرِ فکر شکایت بدلتی رہتی ہے
حَریمِ راز، امیدِ کرم کہ ذوقِ نمود
خلوصِ دوست کی قیمت بدلتی رہتی ہے
کبھی غرور، کبھی بے رخی، کبھی نفرت
شبیہِ جوشِ محبت بدلتی رہتی ہے
نہیں کہ تیرا کرم مجھ کو ناگوار نہیں
یہ غم ہے وجہِ مسرّت بدلتی رہتی ہے
اگر فریب حَسیں ہو تو پھر فریب نہیں
خطا معاف حقیقت بدلتی رہتی ہے
کبھی جو غیر تھا وہ میری زندگی ہے آج
بَقیدِ وقت صداقت بدلتی رہتی ہے
مرے چلن کو تغیّر نہیں زمانے میں
تری نگاہِ عنایت بدلتی رہتی ہے
کبھی ملُول، کبھی شادماں ، کبھی بے حِس
ترے شکیبؔ کی حالت بدلتی رہتی ہے
شکیب جلالی

Comments