ورنہ کھا جاتے مسائل مجھے خیر و شر کے

ورنہ کھا جاتے مسائل مجھے خیر و شر کے
 خود کو رکھا ہے غزل کےلئے مختص کر کے
میں سمندر کو پرے کرتا ہوں خود سے لیکن
 دوڑ پڑتا ہے کوئی آنکھ میں پانی بھر کے
میری خواہش ہے کہ خوشبو کو مجسم دیکھوں
 میں تو چاہوں گا کسی طرح دوپٹہ سرکے


روشنی دیکھے بنا روشنی سے کھیلتا ہے
 ایک اندھا ترے چہرے کی وضاحت کر کے
اک نہ اک آئینہ ٹوٹا ہے کسی گھر میں ضرور
 ہاتھ زخمی ہیں مرے شہر کے شیشہ گر کے
قبر تک جان نہیں چھوڑتے یہ دشمنٍ جاں
 دکھ بڑے پکے ہوا کرتے ہیں کچے گھر کے
پنچھی بیٹھے ہوئے شاخوں پہ ہی مر جاتے ہیں
 دل میں پیوست ہوئے ایسے نشانے ڈر کے
راکب مختار

Comments