ہم کو اس شوخ نے کل در تلک آنے نہ دیا

ہم کو اس شوخ نے کل در تلک آنے نہ دیا
در و دیوار کو بھی حال سنانے نہ دیا
پردۂ چشم میں ہر دم تو چھپائے آنسو
بے قراری نے مجھے راز چھپانے نہ دیا
مجھ کو آلودہ رکھا اس مری گمراہی نے
عرق شرم گنہ بھی تو بہانے نہ دیا
تیرے کہنے سے میں اب لاؤں کہاں سے ناصح
صبر جب اس دل مضطر کو خدا نے نہ دیا
منع ہے بس کہ خور و خواب ہمیں غم میں تیرے
مر کے سونے نہ دیا زہر بھی کھانے نہ دیا
ہوں ستم گر میں جفاؤں سے تری شرمندہ
ناتوانی نے مجھے سر بھی اٹھانے نہ دیا
دم کا آنا تو بڑی بات ہے لب پر عارفؔ
ضعف نے حرف شکایت کبھی آنے نہ دیا
زین العابدین خاں عارف

Comments