مری بساط میں جو تھا وہ سارا غم لگا دیا

مری بساط میں جو تھا وہ سارا غم لگا دیا
مگر کسی کی یاد نے معاوضہ بڑھا دیا
سب اپنے اشک پونچھ لیں اداسیاں سمیٹ لیں
کہ مسکرانا فرض ہے، اگر وہ مسکرا دیا
وہ لَمس، لاکھ زندگی کی کوشِشوں میں تھا مگر
دلوں میں ایسی برف تھی کہ خون تک جما دیا
عقیدتوں، محبتوں کے سلسلے تو مر چکے
یقین کر یہ پھول میں نے عادتاً بہا دیا
کسی کا پہلا ہجر تھا کہ آمدِ بہار نے
کسی کا سارا انتظام خاک میں ملا دیا
وگرنہ میں تو بہہ گیا تھا اُس ندی کے ساتھ ہی
کہ عین وقت پر کسی نے خواب سے جگا دیا
میں خیمۂ حیات میں تھا فیصلے کا منتظر
اِدھر چراغ بجھ گیا اُدھر مَیں جِھلمِلا دیا
جہانزیب ساحر

Comments