گناہ کر کے کہیں پارسا نہ ہو جائے

گُناہ کر کے کہیں پارسا نہ ہو جائے
وہ شخص اچھا بہت ہے بُرا نہ ہو جائے
یہ کارِ عشق کہیں لطف ہی نہ دینے لگے
درخت کَٹنے سے پہلے ہَرا نہ ہو جائے
وہ دن بھی تھے تجھے کَھونے کا خوف جاتا نہ تھا
اور اب یہ ڈر کہ کہیں سامنا نہ ہو جائے
یہ جس حساب سے ہم تم اکیلے ہو رہے ہیں
خدانخواستہ کوئی خُدا نہ ہو جائے
نماز اِس لیے پڑھتا ہوں کہ سکون رہے
اور اِس لیے بھی کہیں تُو قضا نہ ہو جائے
تمام عمر اِسی خوف میں گزاری ہے
کہ جو ملا ہی نہيں وہ جُدا نہ ہو جائے
میں اِس لیے بھی اُسے چھیڑتا نہيں ' عامی
سگِ زمانہ کہیں باؤلہ نہ ہو جائے
عمران عامی

Comments