یوں مرے پاس سے ہو کر نہ گزر جانا تھا

یوں مرے پاس سے ہو کر نہ گزر جانا تھا
بول اے شخص تجھے کون نگر جانا تھا
روح اور جسم جہنم کی طرح جلتے ہیں
اس سے روٹھے تھے تو اس آگ کو مرجانا تھا
راہ میں چھاؤں ملی تھی کہ ٹھہر سکتے تھے
اس سہارے کو مگر تنگ سفر جانا تھا
خواب ٹوٹے تھے کہ آنکھوں میں ستارے ناچے
سب کو دامن کے اندھیرے میں اتر جانا تھا
حادثہ یہ ہے کہ ہم جاں نہ معطر کرپائے
وہ تو خوشبو تھا اسے یوں بھی بکھر جانا تھا
ساقی فاروقی

Comments