یہیں کہیں پہ کبھی شعلہ کار میں بھی تھا

یہیں کہیں پہ کبھی شعلہ کار میں بھی تھا
شب سیاہ میں اک چشم مار میں بھی تھا
بہت سے لوگ تھے سقراط کار و عیسیٰ دم
اسی ہجوم میں اک بے شمار میں بھی تھا
یہ چاند تارے مرے گرد رقص کرتے تھے
لکھا ہوا ہے زمیں کا مدار میں بھی تھا
سنا ہے زندہ ہوں حرص و ہوس کا بندہ ہوں
ہزار پہلے محبت گزار میں بھی تھا
جو میرے اشک تھے برگ خزاں کی طرح گرے
برس کے کھل گیا ابر بہار میں بھی تھا
وہ بیل بوٹے بنائے کہ دیکھتے رہے لوگ
یہ ہاتھ کاٹ لیے مینا کار میں بھی تھا
مجھے سمجھنے کی کوشش نہ محبت نے
یہ اور بات ذرا پیچ دار میں بھی تھا
سپردگی میں نہ دیکھی تھی تمکنت ایسی
یہ رنج ہے کہ انا کا شکار میں بھی تھا
مجھے عزیز تھا ہر ڈوبتا ہوا منظر
غرض کہ ایک زوال آشکار میں بھی تھا
مجھے گناہ میں اپنا سراغ ملتا ہے
وگرنہ پارسا و دین دار میں بھی تھا
برائے درس اب اطفال شہر آتے ہیں
حرام کار غنا و قمار میں بھی تھا
میں کیا بھلا تھا یہ اگر کمینی تھی
در کمینگی پہ چوب دار میں بھی تھا
وہ آسمانی بلا لوٹ کر نہیں آئی
اسی زمین پر امیدوار میں بھی تھا
ساقی فاروقی

Comments