خود کو ہر روز کھولتا ہوں میں

خود کو ہر روز کھولتا ہوں مَیں
تُو کہاں ہے، ٹٹولتا ہوں مَیں
تاکہ نشّہ دو آتشہ ہو جائے
رنج میں رنج گھولتا ہوں مَیں
میرے ہونٹوں پہ ہاتھ ہے غم کا
ورنہ کب ایسے بولتا ہوں مَیں!
اس طرح باندھ کر گیا، کوئی
آج تک گرہیں کھولتا ہوں مَیں
جانے کیوں پلڑے ہل نہیں پاتے!
جب  خزانے کو تولتا ہوں مَیں
نہیں ملتا وہ خوابِ گم گشتہ
کتنی آنکھیں ٹٹولتا ہوں مَیں!
اب وہ لہریں کہاں رہیں، شارق
اب تو دانستہ ڈولتا ہوں مَیں
سعید شارق

Comments