روٹھ کر نکلا تو وہ اس سمت آیا بھی نہیں

روٹھ کر نکلا تو وہ اس سمت آیا بھی نہیں
اور میں نے عادتاً جا کر منایا بھی نہیں

آن بیٹھی ہے منڈیروں پر خزاں کی زرد لو
میں نے کوئی پیڑ آنگن میں اگایا بھی نہیں

پھر سلگتی انگلیاں کس طرح روشن ہو گئیں
اس نے میرا ہاتھ آنکھوں سے لگایا بھی نہیں

اپنی سوچوں کی بلندی اور وسعت کیا کروں
آسماں کا سائباں کیا، جس کا سایا بھی نہیں

پھر گلی کوچوں سے مجھ کو خوف کیوں آنے لگا
جگمگاتا شہر ہے اسلم، پرایا بھی نہیں
اسلم کولسری

Comments