کس طرح چاند نگر تک پہنچوں

کس طرح چاند نگر تک پہنچوں
آپ بلوائیں تو در تک پہنچوں
چومتے چومتے قدموں کے نقوش
آپکی راہ گزر تک پہنچوں



 شبِ غم سے کسی صورت نکلوں
اور دامانِ سحر تک پہنچوں
میں کہ غربت کے سفر میں ہوں مدام
اک اشارہ ہو تو گھر تک پہنچوں
میں کہ ہوں آہِ پریشاں آقا
اذن ہو بابِ اثر تک پہنچوں
میں کہ آنسو ہوں مگر خاک کا رزق
کاش معراجِ نذر تک پہنچوں
ایک پتھر ہی سہی میرا وجود
لیکن اس آئینہ گر تک پہنچوں
ڈھانپ لے عیب میرے خاکِ بقیع
ایسے انجام سفر تک پہنچوں
حضرت حفیظؔ تائب

Comments