سوتے ہیں وہ آئینہ لے کر خوابوں میں بال بناتے ہیں

سوتے ہیں وہ آئینہ لے کر خوابوں میں بال بناتے ہیں
سادہ سے پرندے کی خاطر کیا ریشمی جال بناتے ہیں
امید کی سوکھتی شاخوں سے سارے پتے جھڑ جائیں گے
اس خوف سے اپنی تصویریں ہم سال بہ سال بناتے ہیں
زخموں کو چھپانے کی خاطر کپڑے ہی بدلنا چھوڑ دیا
پوچھو تو سہی ہم کس کے لیے اپنا یہ حال بناتے ہیں
وہ بولتی آنکھیں ملتے ہی جھک جاتی ہیں خاموشی سے
ہم ان کے جواب سے پھر اپنا اک اور سوال بناتے ہیں

غلام محمد قاصر

Comments