بجھ گئی ریت بھی وحشت بھی اٹھا لی گئی ہے

بجھ گئی ریت بھی وحشت بھی اٹھا لی گئی ہے
دشت سے، دشت کی حیرت بھی اٹھا لی گئی ہے

دل بھی آیا ہوا ھے کارِ ہوس کی زد میں
عشق-پاکیزہ سے برکت بھی اٹھا لی گئی ھے

راستہ موت کا دشوار ہوا جاتا ھے
یعنی ہم سے یہ سہولت بھی اٹھا لی گئی ھے

مجھ میں رہتا تھا کوئی اور بھی میرے جیسا
تیرے آنے سے وہ قربت بھی اٹھا لی گئی ھے

حیرتِ عکس بھی محدود ہوئے جاتی ہے
اور آئینے سے وسعت بھی اٹھا لی گئی ہے

دیکھنے والا  کوئی دیدہءبینا بھی نہیں
اور ہر شے کی حقیقت بھی اٹھا لی گئی ہے

کیا مصیبت ہے کہ اک تیرے چلے جانے سے
دل سے خوشبوئے محبت بھی اٹھا لی گئی ہے

اٹھ گیا رزق بھی، اس خاک سے میرا اسعد
اور آسانی ہجرت بھی اٹھا لی گئی ہے

بلال اسعد

Comments