نہ ڈگمگائے کبھی ہم وفا کے رستے میں

نہ ڈگمگائے کبھی ہم وفا کے رستے میں
چراغ ہم نے جلائے ہوا کے رستے میں



کسے لگائے گلے اور کہاں کہاں ٹھہرے
ہزار غنچہ و گُل ہیں صبا کے رستے میں

خدا کا نام کوئی لے تو چونک اٹھتے ہیں
ملے ہیں ہم کو وہ رہبر خدا کے رستے میں

کہیں سلاسلِ تسبیح کہیں زناّر
بچ ہے ہیں دام بہت مُدعا کے رستے میں

ابھی وہ منزلِ فکرو نظر کہاں آئی
ہے آدمی ابھی جرم و سزا کے رستے میں

ہیں آج بھی وہی دارو رسن وہی زنداں
ہر اِک نگاہِ رموز آشنا کے رستے میں

یہ نفرتوں کی فصیلیں جہالتوں کے حصار
نہ رہ سکیں گے ہماری صدا کے رستے میں

مٹا سکے نہ کوئی سیلِ انقلاب جنہیں
وہ نقش چھوڑے ہیں ہم نے وفا کے رستے میں

زمانہ ایک سا جالب صدا نہیں رہتا
چلیں گے ہم بھی کبھی سر اُٹھا کے رستے میں

حبیب جالب

Comments