خاک میں وہ مری ہستی کو ملا دیتے ہیں

خاک میں وہ مری ہستی کو مِلا دیتے ہیں
جیتے جی دل کی کدورت میں دبا دیتے ہیں

اُن کے آنے کی جو احباب دعا دیتے ہیں
ہم تری جان کو اے چرخ دعا دیتے ہیں

تلخ شکوے لبِ شیریں سے مزہ دیتے ہیں
گھول کو شہد میں وہ زہر پِلا دیتے ہیں

مژدہء وصل کے بدلے مجھے ہر شب احباب
شام سے سورہء یاسین سُنا دیتے ہیں



"یوں تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں "

اُس پری وش سے مِلادو مجھے اے حضرتِ شیخ
آپ تو حور کو انساں سے مِلا دیتے ہیں

قہر و بیداد پہ ہیں شُکر و دعا کے خواہاں
داد فریاد کی کیا اہلِ جفا دیتے ہیں

عرضِ مطلب نہ سہی ، وجہِ خموشی ہی سہی
کچھ نہ کچھ وہ مجھے الزام لگا دیتے ہیں

کیا غضب ہے گِلہ ء غیر کروں یا نہ کروں
وہ تو پہلے ہی ادھر کان لگا دیتے ہیں

اُن کو ہوتا ہے جو پہلو سے اٹھانا منظور
مدعی کو مرے پہلو میں بٹھا دیتے ہیں

کیا ہی خوش ہوں کہ عدو پر ہے دل آیا ان کا
جس پہ مٹتے ہیں وہ دنیا سے مِٹا دیتے ہیں

اپنے انداز کی پڑھ دو نا غزل کوئی ظہیر
سب کو اس رنگ کے اشعار مزہ دیتے ہیں
ظہیر دہلوی

Comments