سر راہ عدم گور غریباں طرفہ بستی ہے

سرِ راہِ عدم گورِ غریباں طرفہ بستی ہے
کہیں غربت برستی ہے کہیں حسرت برستی ہے

تری مسجد میں واعظ، خاص ہیں اوقات رحمت کے
ہمارے میکدے میں رات دن رحمت برستی ہے

خمارِ نشّہ سے نگاہیں ان کی کہتی ہیں
یہاں کیا کام تیرا، یہ تو متوالوں کی بستی ہے

جوانی لے گئی ساتھ اپنے سارا عیش مستوں کا
صراحی ہے نہ شیشہ ہے نہ ساغر ہے نہ مستی ہے

ہمارے گھر میں جس دن ہوتی ہے اس حور کی آمد
چھپر کھٹ کو پری آ کر پری خانے سے کستی ہے

چلے نالے ہمارے یہ زبان حال سے کہہ کر
ٹھہر جانا پہنچ کر عرش پر، ہمّت کی پستی ہے



امیر اس راستے سے جو گزرتے ہیں وہ لٹتے ہیں
محلہ ہے حسینوں کا، کہ قزاقوں کی بستی ہے
امیر مینائی

Comments