اسی جزیرۂ جنت نشان ہی میں رہے

اسی جزیرۂ جنت نشان ہی میں رہے
ہم اس جہان کے تھے اس جہان ہی میں رہے



زمینیوں کے تھے اپنے مہہ و نجوم بہت
جو آسمان کے تھے آسمان ہی میں رہے

نئی جگہ میں تو سب کچھ سما نہ سکتا تھا
وہ صبح و شام پرانے مکان ہی میں رہے

نہ جانے کون کشش تھی ہوا کی گلیوں میں
کہ نو نیاز پرندے اُڑان ہی میں رہے

جو چار حرف بمشکل زباں تک آئے تھے
تمام عمر امید بیان ہی میں رہے
احمد مشتاق

Comments